Free Translation Widget

Saturday, January 7, 2012

عبد المصطفٰے اور غلام نبی نام رکھنا


عبد المصطفٰے اور غلام نبی نام رکھنا
از: انصار احمد جامی نوری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  
دیوبندی کہتے ہیں کہ عبد المصطفی ، عبد النبی ، غلام رسول ، غلام نبی نام رکھنا شرک ہے ۔اہل سنّت و الجماعت یہ نام رکھنا جائز سمجھتے ہیں اور باعثِ برکات خیال کرتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے ::
 دیوبندی حضرات کے بھی بزرگ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس آیت کریمہ پر فرماتے ہیں کہ ’’ چونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واصلِ بحق ہیں، عباد اللہ کو عباد الرسول کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
 ۔ قُل یٰا عِبَادِ یَ الَّذِینَ اَسرَفُو٘ ا علٰے اَنفُسِھِم٘ ۔۔۔
مرجع ضمیر متکلم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہیں ۔ ( امداد امشتاق صفحہ 93 )
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی بھی اسی پر لکھتے ہیںکہ بھی انھیں معنی کا ہے آگے فرماتے ہیں ::
 لَا تَق٘نَطُو٘ا مِن٘ رَح٘مَۃِ اللّٰہِ اگر مرجع اُس کا اللہ ہوتا تو فرماتا مِن٘ رَح٘مَتِی٘ تاکہ مناسب عبادی ہوتی ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ 93 )
اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے اسی لیے کہا ہے : یٰا عبادی کہہ کہ ہم کو شاہ نے :: اپنا بندہ کرلیا پھر تجھ کو کیا
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ::
امیر المومنین خلیفہ دوم خلیفہ برحق سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ کہلاتے تھے جیسا کہ روایت میں ہے ::
فَلَمَّا وَلّٰی عُمَرَب٘نِ ال٘خَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ عَلٰی مِن٘بَرِ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّمَ حَمِدَاللّٰہَ وَاَث٘نٰی عَلَی٘ہِ ثُمَّ قَالَ یٰااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی٘ قَد٘ عَلِم٘تُ اَنَّکُم٘ کُن٘تُم٘ تُو٘نِِسُو٘نَ مِن٘ شِدَّ ۃِِ وَّ غِل٘ظَۃِِ وَّ ذٰالِکَ اَنِّی٘ کُن٘تُ مَعَ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّم وَکُن٘تُ عَب٘دُ ہٗ وَخَادِمُہٗ ۰
ترجمہ :: پس جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو لوگوں کو آپ نے منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر آپ نے فرمایا :: اے لوگو ! میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت رکھتے ہو اور یہ اس لیے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد بندہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خادم ہوں ۔س ( کنزالعمال جلد 3 صفحہ 147 ۔حیواۃ الحیوان للدمیری جلد 1 ۔ازالۃ الخفاء للشاہ ولی اللہ الدہلوی جلد 2 صفحہ 63 )
محترم حضرات ! آپ نے دیکھا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں فخر الرسل ، ہادی السُبل حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ::
 اِنَّ الشَّی٘طَانَ یَفِرُّ مِن٘ ظِلِّ عُمَرَ۰
ترجمہ :: بے شک شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سایہ سے بھاگتا ہے ۔
اس شان والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کو دیوبندی بھی جمعہ کے روز منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں :: منبر و محراب کی زینت اور اسلام کی عزت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر ہزارہا صحابہ اور تابعین کے سامنے جن میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ ، جیسی شخصیتیں بھی موجود ہوں ، حمد و ثنا کے بعد اپنی خلافت کے منصب پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں ، میں رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد ، بندہ اور خادم ہوں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ اے عمر فاروق ! تم نے شرک کیا ہے ( معاذاللہ )
سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہنا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اعتراض نہ کرنا یہ واضح دلیل ہے کہ جملہ صحابہ اور تابعین عظام اور حاضرین محفل اور تمام مومنین کا بھی یہی عقیدہ تھا اور اس نام اور اس نسبت کو وہ شرک نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کو مومنِ کامل ہی سمجھتے تھے ۔ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ::
 عَلَی٘کُم٘ بِسُنَّتِی٘ وَسُنَّۃِ ال٘خُل٘فَائِ الرَّشِدِی٘نَ ال٘مَھ٘دِ یَّی٘نَ
ترجمہ :: تم پر میری اور خلفاء راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کہ سنت لازم ہے ۔ ( مشکوٰۃ شریف ، ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 92 ، ابن ماجہ شریف صفحہ 5 ، ابوداؤد شریف جلد 2 صفحہ 279 ، مسند دارمی صفحہ 26 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 27 ، مستدرک جلد 1 صفحہ 95 )
پس اس ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا سیدنا عثمان غنی ، سیدنا علی شیر خدا اور دیگر صحابی کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے سامنے ، عبد المصطفیٰ ، عبد النبی اپنے آپ کو قرار دینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اہل سنت و جماعت کے حضرات عبد المصطفیٰ اور عبد النبی نام رکھتے ہیں ، میرے اعلیٰ حضرت ، مجدد د دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خاں بریلوی رضی اللہ عنہ کی جو مہر مبارک تھی آپ نے اُس مہر پر بھی عبد المصطفیٰ محمد احمد رضا خاں بریلوی لکھایا ہو اتھا ۔
علامہ ابو النور محمد بشیر صاحب کوٹلوی نے اسی لیے لکھا ہے
میرے عبد المصطفیٰ احمد رضا تیرا قلم
 دُشمنان مصطفی کے واسطے شمشیر ہے
دیوبندی اس نام کو شرک کہتے ہیں ، اہل سنت و جماعت اس نام کو رکھتے ہیں ۔ پس حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہلانے سے اظہر من الشمس ولامس ہے کہ اس کو شرک قرار دینے والے دیوبندی اہل سنت و جماعت نہیں۔

عبد المصطفٰے اور غلام نبی نام رکھنا


عبد المصطفٰے اور غلام نبی نام رکھنا
از: انصار احمد جامی نوری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  
دیوبندی کہتے ہیں کہ عبد المصطفی ، عبد النبی ، غلام رسول ، غلام نبی نام رکھنا شرک ہے ۔اہل سنّت و الجماعت یہ نام رکھنا جائز سمجھتے ہیں اور باعثِ برکات خیال کرتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے ::
 دیوبندی حضرات کے بھی بزرگ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس آیت کریمہ پر فرماتے ہیں کہ ’’ چونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واصلِ بحق ہیں، عباد اللہ کو عباد الرسول کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
 ۔ قُل یٰا عِبَادِ یَ الَّذِینَ اَسرَفُو٘ ا علٰے اَنفُسِھِم٘ ۔۔۔
مرجع ضمیر متکلم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہیں ۔ ( امداد امشتاق صفحہ 93 )
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی بھی اسی پر لکھتے ہیںکہ بھی انھیں معنی کا ہے آگے فرماتے ہیں ::
 لَا تَق٘نَطُو٘ا مِن٘ رَح٘مَۃِ اللّٰہِ اگر مرجع اُس کا اللہ ہوتا تو فرماتا مِن٘ رَح٘مَتِی٘ تاکہ مناسب عبادی ہوتی ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ 93 )
اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے اسی لیے کہا ہے : یٰا عبادی کہہ کہ ہم کو شاہ نے :: اپنا بندہ کرلیا پھر تجھ کو کیا
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ::
امیر المومنین خلیفہ دوم خلیفہ برحق سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ کہلاتے تھے جیسا کہ روایت میں ہے ::
فَلَمَّا وَلّٰی عُمَرَب٘نِ ال٘خَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ عَلٰی مِن٘بَرِ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّمَ حَمِدَاللّٰہَ وَاَث٘نٰی عَلَی٘ہِ ثُمَّ قَالَ یٰااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی٘ قَد٘ عَلِم٘تُ اَنَّکُم٘ کُن٘تُم٘ تُو٘نِِسُو٘نَ مِن٘ شِدَّ ۃِِ وَّ غِل٘ظَۃِِ وَّ ذٰالِکَ اَنِّی٘ کُن٘تُ مَعَ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّم وَکُن٘تُ عَب٘دُ ہٗ وَخَادِمُہٗ ۰
ترجمہ :: پس جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو لوگوں کو آپ نے منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر آپ نے فرمایا :: اے لوگو ! میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت رکھتے ہو اور یہ اس لیے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد بندہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خادم ہوں ۔س ( کنزالعمال جلد 3 صفحہ 147 ۔حیواۃ الحیوان للدمیری جلد 1 ۔ازالۃ الخفاء للشاہ ولی اللہ الدہلوی جلد 2 صفحہ 63 )
محترم حضرات ! آپ نے دیکھا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں فخر الرسل ، ہادی السُبل حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ::
 اِنَّ الشَّی٘طَانَ یَفِرُّ مِن٘ ظِلِّ عُمَرَ۰
ترجمہ :: بے شک شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سایہ سے بھاگتا ہے ۔
اس شان والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کو دیوبندی بھی جمعہ کے روز منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں :: منبر و محراب کی زینت اور اسلام کی عزت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر ہزارہا صحابہ اور تابعین کے سامنے جن میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ ، جیسی شخصیتیں بھی موجود ہوں ، حمد و ثنا کے بعد اپنی خلافت کے منصب پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں ، میں رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد ، بندہ اور خادم ہوں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ اے عمر فاروق ! تم نے شرک کیا ہے ( معاذاللہ )
سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہنا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اعتراض نہ کرنا یہ واضح دلیل ہے کہ جملہ صحابہ اور تابعین عظام اور حاضرین محفل اور تمام مومنین کا بھی یہی عقیدہ تھا اور اس نام اور اس نسبت کو وہ شرک نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کو مومنِ کامل ہی سمجھتے تھے ۔ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ::
 عَلَی٘کُم٘ بِسُنَّتِی٘ وَسُنَّۃِ ال٘خُل٘فَائِ الرَّشِدِی٘نَ ال٘مَھ٘دِ یَّی٘نَ
ترجمہ :: تم پر میری اور خلفاء راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کہ سنت لازم ہے ۔ ( مشکوٰۃ شریف ، ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 92 ، ابن ماجہ شریف صفحہ 5 ، ابوداؤد شریف جلد 2 صفحہ 279 ، مسند دارمی صفحہ 26 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 27 ، مستدرک جلد 1 صفحہ 95 )
پس اس ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا سیدنا عثمان غنی ، سیدنا علی شیر خدا اور دیگر صحابی کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے سامنے ، عبد المصطفیٰ ، عبد النبی اپنے آپ کو قرار دینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اہل سنت و جماعت کے حضرات عبد المصطفیٰ اور عبد النبی نام رکھتے ہیں ، میرے اعلیٰ حضرت ، مجدد د دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خاں بریلوی رضی اللہ عنہ کی جو مہر مبارک تھی آپ نے اُس مہر پر بھی عبد المصطفیٰ محمد احمد رضا خاں بریلوی لکھایا ہو اتھا ۔
علامہ ابو النور محمد بشیر صاحب کوٹلوی نے اسی لیے لکھا ہے
میرے عبد المصطفیٰ احمد رضا تیرا قلم
 دُشمنان مصطفی کے واسطے شمشیر ہے
دیوبندی اس نام کو شرک کہتے ہیں ، اہل سنت و جماعت اس نام کو رکھتے ہیں ۔ پس حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہلانے سے اظہر من الشمس ولامس ہے کہ اس کو شرک قرار دینے والے دیوبندی اہل سنت و جماعت نہیں۔

جشن میلاد النبی ناجائز کیوں ؟ اور جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟


جشن میلاد النبی ناجائز کیوں ؟ اور جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟
از: پاسبان مسلک رضا ، نباض قوم،
مولانا ابوداؤد محمد صادق قادری رضوی
امیر جماعت رضائے مصطفٰی پاکستان گوجرنوالہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  
وَاِن تعدو نِعمَۃَ اللّٰہ ِ لَا تَحصُو ھَا۔ 
اور اگر اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شما ر نہ کرسکوگے ۔ پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 17 
بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد اور بے حساب اور حد شمار سے باہر ہیں ، مگر ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی جان ، جان ِ جہان و جانِ ایمان حضور پر نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے ، جن کے طفیل باقی سب نعمت و انعامات ہیں ، اعلیٰ حضرت مجددّ دین و ملت مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی  نے فرمایا :۔ 
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے 
اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ، سب سے زیادہ اور بہت ہی اہتمام و تاکید کے ساتھ آپ کی ذات بابرکات کے بھیجنے کا احسان ظاہر فرمایا ۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔ (پ 14 ، رکوع 8 ) چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے ، اس لئے اہل ایمان اس کی سب سے بڑھ کر قدرو منزلت جانتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتے ہیں اور جس ماہ یوم میں اس احسان و نور و نعمت کا ظہور ہوا ، اس میں اس کا بالخصوص چرچا و مظاہرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ مولیٰ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی نعمتوں کی تذکیر تشکر اور ذکر اذکار کا حکم فرمایا ہے ، خاص طور پر سورۃ الضحیٰ میں ارشاد ہوا ہے ۔ واما بنعمۃ ربک فحدث ۔ ( اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔پ 30 رکوع 18 ۔) پھر بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے نعم اللہ ہونے کا بیان اور ناشکری و ناقدری کرنے والے بے دینوں کا رد فرمایا ۔ الم تر الی الذین بدلو انعمۃ اللہ کفراََ۔ ( کیا تم نے انہیں نہ دیکھا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی ۔ پ 13 رکوع 17 ۔) بخاری شریف و دیگر تفاسیر میں سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :: کہ ناشکری کرنے والے کفار ہیں ۔ ومحمدنعمۃ اللّٰہ ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ( بخاری شریف جز ثالث صفحہ 6 ) جب اللہ کے فرمان اور قرآن سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص نعمت ہیں جس پر اللہ نے اپنے خاص احسان کا ذکر فرمایا اور پھر نعمت کا چرچا کرنے کا بھی حکم دیا تو اب کون مسلمان و اہل ایمان ہے جو آپ کی ذات بابرکات ، نور کے ظہور اور دنیا میں جلوہ گری و تشریف آوری کی خوشی نہ منائے ، شکر ادا نہ کرے اور سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑھ کر چرچا و مظاہرہ پسند نہ کرے اور نعمت عظمٰی کے خصوصی شکرانہ اور چرچا و مظاہرہ کے لئے جشن عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولود شریف اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس مبارک پر برا منائے اور زبان طعن دراز کرے ۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خاں مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔ 
حبیب حق ہیں خدا کی نعمت بنعمۃ ربک فحدث
یہ فرمان مولٰی پر عمل ہے جو بزم مولد سجارہے ہیں
رحمت کے خوشی :۔ 
قرآن ہی میں یہ بھی بیان ہے کہ ( تم فرماؤ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہیے ، کہ خوشی کریں ، وہ ان کی سب دھن دولت سے بہتر ہے )۔ پ 11 رکوع 11 ۔جس طرح اوپر نعمت کا چرچا کرنے کا ذکر ہوا ہے ، اسی طرح یہاں فضل و رحمت پر خوشی منانے کا بیان ہے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت بلکہ جانِ رحمت اور رحمۃ اللعالمین (پ17 رکوع 7 ) آپ کی ذاتِ بابرکات ہے یہاں فضل و رحمت سے اگر کوئی بھی چیز مراد لی جائے تو یقینا وہ بھی آپ ہی کا صدقہ وسیلہ اور طفیل ہے ، لہذا آپ بہر صورت بدرجہ اولیٰ فضل الہٰی و رحمت خداوندی اور نعمۃ اللہ ہونے کا مصداق کامل ہیں ، کیونکہ دونوں جہان میں آپ کا ہی سب فیضان ہے اور آپ کی خوشی منانا ، چرچا و مظاہرہ کرنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان و فرمان خداوندی کے تحت و اس کے مطابق ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس کے مخالف و منکر اور شرک و بدعات ۔ 
خدا کا شکر نعمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت ہے
یہ دونوں کی اطاعت ہے قیام محفل مولد
حصول فیض و رحمت ہے نزول خیر و برکت ہے
حصول عشق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے قیام محفل مولد
نہ اس میں رفع سنت ہے نہ شرک و کفر بدعت ہے
یہ رد شرک و بدعت ہے قیام محفل مولد 
یوم ولادت کی اہمیت :۔ 
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر شریف (سوموار) کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 ) اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یوم نزول قرآن کی اہمیت اور اس دن کی یادگار منانا اور شکر نعمت کے طور پر روزہ رکھنا ثابت ہوا جیسے ہفتہ وار دنوں کے حساب سے یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی یادگار اہمیت ہے ویسے ہی سالانہ تاریخ کے حساب سے بھی یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی اہمیت و امت میں مقبولیت ہے ، جس طرح نزول قرآن کا دن پیر 27 رمضان المبارک کو سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ، اسی طرح یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن پیر 12 ربیع الاوّل میں ہونے کے باعث اہل اسلام میں ماہ ربیع الاوّل و 12 ربیع الاوّل کی سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ۔ بلکہ امام احمد بن محمد قسطلانی شارح بخاری اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدّث دہلوی شارح مشکوٰۃ ( رحمۃ اللہ علیہما ) جیسے محدثین نے نقل فرمایا کہ امام احمد بن حنبل جیسے امام واکابر علماءامت نے تصریح کی ہے کہ شب میلاد شب قدر سے افضل ہے ۔ نیز فرمایا جب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے دن جمعۃ المبارک میں مقبولیت کی ایک خاص ساعت ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی ساعت کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ۔( اس کی شان کا کیا عالم ہوگا)۔(زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ135.136 ۔ مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 13 )  اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا خوب ترجمانی کی ۔ 
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
لفظ عید کی تحقیق :۔ 
مذکورہ ارشادات کی روشنی میں مزید عرض ہے کہ بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔( مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140 ) ملخصاََ  لہذا جب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن عید کا دن بلکہ دونوں عیدوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے تو سیدنا سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جب کہ سب کچھ آپ کا ہی فیضان ، آپ کے دم قدم کی بہار اور آپ ہی کے نور کا ظہور ہے ۔ 
ہے انہی کے دم قدم سے باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں 
صحابہ کا فتویٰ :۔ 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔ جو سب کی اصل و سب مخلوق سے افضل ہیں ۔ مگر : 
آنکھ والے تیرے جلووں کا نظارہ دیکھے
دیدہ ء کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے 
قرآن کی تائید : 
عیسٰی ابن مریم نے عرض کی : اے اللہ ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ۔ کہ وہ دن ہمارے لئے عید ہوجائے اگلوں او ر پچھلوں کی ۔(پارہ 7 آیت 114 سورہ المائدہ )
سبحان اللہ !! جب مائدہ اور من و سلویٰ جیسی نعمت کا دن عید کا دن قرار پایا ۔ تو سب سے بڑی نعمت یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شک رہا ؟
محدثین کا بیان : 
امام احمد بن محمد قسطلانی علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعائیہ بیان نقل فرمایا : فرحم اللہ امراءاتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیادہ ۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے ، جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ میلاد کی راتوں کو عیدوں کی طرح منائے ۔(زرقانی شرح المواہب جلد اول صفحہ 139 ۔ ماثبت من السنۃ صفحہ 60 ) دیکھئے ایسے جلیل القدر محدثین نے نہ صرف ایک دن بلکہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب راتوں کو عید قرار دیا ہے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ منانے والوں کے لئے دعائے رحمت بھی فرمائی ہے ، جس دن کی برکت سے ربیع الاول کی راتیں بھی عیدیں قرار پائیں ۔ 12 ربیع الاول کا وہ خاص دن کیونکر عید قرار نہ پائے گا ؟ بلکہ امام دادودی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں آپ کی ولادت کی جگہ مسجد حرام کے بعد سب سے افضل ہے اور اہل مکہ عیدین سے بڑھ کر وہاں محافل میلاد کا انعقاد کرتے تھے ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مبارک جگہ محفل میلاد میں حاضری اور مشاہدہ ءانوار کا ذکر فرمایا ۔( جواہر البحار جلد سوم صفحہ 1154 فیوض الحرمین صفحہ 27 )
مفسرین کا اعلان : ۔ 
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) نے نقل فرمایا کہ جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔ (النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 ) مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔( تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56 )۔ 
12 ربیع الاول پر اجما ع امت :۔ 
امام قسطلانی ، علا مہ زرقانی ، علامہ محمد بن عابدین شاکی کے بھتیجے علامہ احمد بن عبد الغنی دمشقی ، علامہ یوسف نہبانی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم نے تصریح فرمائی کہ امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ علماءکی تحقیق ہے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے کہا یہی جمہور سے مشہور ہے اور علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس لئےکہ سلف و خلف کا تمام شہروں میں 12 ربیع الاول کے عمل پر اتفاق ہے ۔ بالخصوص اہل مکہ اسی موقع پر جائے ولادت باسعادت پر جمع ہوتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ ملخصاََ (زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ 132 ۔ جواہر البحار جلد 3 صفحہ 1147 ۔ماثبت من السنۃ صفحہ 57 ۔ مدارج النبوت صفحہ 14) 
واقعہءابولہب : ۔ 
جلیل القدر آئمہ محدثین نے نقل کیا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سن کر اسے آزاد کردیا ، جس کے صلہ میں بروز پیر اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور انگلی سے پانی چوسنا میسر آتا ہے ، جب کافر کا یہ حال ہے تو عاشق صادق مومن کے لئے میلاد شریف کی کتنی برکات ہوں گی ؟ ( بخاری جلد 3 صفحہ 243 ، مع شرح زرقانی صفحہ 139 ماثبت بالسنہ صفحہ 60 )
دوسروں کی زبان سے :۔ 
( ہفت روزہ اہلحدیث) لاہور۔27 مارچ 1981 ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے ۔: ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر (اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔ 
جلوس :۔ 
حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔( اہلحدیث 16.1.81...27.3.81. )
تنظیم اہلحدیث :۔ 
جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ، اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ) 
سبحان اللہ ! اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔ ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ ؛ 
یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے
کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی
خوشی ہے عید میلاد النبی کی 
یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی
کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی
حضور  سرور ذات گرامی 
الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے ۔ 
مسئلہ بدعت :۔ 
مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے ۔ 
میرے مولا کے میلاد کی دھوم ہے :: ہے وہ بد بخت جو آج محروم ہے
استفسار : 
اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا کیا جواب ہے ؟ 
تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے :: اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے منکرین میلاد کا کردار :۔
جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں
مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں
مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں
مگر
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے
تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے صد سالہ جشن دیوبند کا بیان
صدائے باز گشت :۔ 
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہءآفاق کلام و اشعار میں :: 
زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است  فرماکردیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ
بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است 
تفصیل : ۔
اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا 21، 22، 23۔ مارچ 1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے"بنفس نفیس" جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداؤں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ،مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو 'عزت مآب وزیراعظم ہندوستان' کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ' ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے': علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو 'آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ 'رضائے مصطفٰے' گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء۔)
یادگار اخباری دستاویز :۔ 
نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)
تقریر :۔ 
مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی 23 مارچ 
تصویر :۔ 
روزنامہ جنگ کراچی 3 اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ 'مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں۔': 
روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور۔9۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔'مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔'
دیگر شرکاء :۔
جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی 11۔اپریل)
سنجے گاندھی کی دعوت :۔ 
اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندواؤں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور 9۔اپریل)
ہندواؤں کا شوق میزبانی :۔ 
کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء)
حکومتی دلچسپی :۔ 
اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براؤن بھارت۔مارچ 1980ء)
ڈیڑھ کروڑ :۔ 
جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کے لئے اکٹھے کئے۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء)
30۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل 1980ء)
کسٹم :۔ 
ہنگامی طور پر جلسہ کے گرد متعدد نئی سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور بجلی کی ہائی پاور لائن مہیا کی گئی بھارتی کسٹم اور امیگریشن حکام کا رویہ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے مندوبین کو کسی قسم کی تکلیف نہیں آنے دی۔ (روزنامہ امروز لاہور 9 اپریل 1980ء)
اخراجات جشن :۔ 
تقریبا جشن کے انتظامات وغیرہ پر 75 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی،: پنڈال پر چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔ کیمپوں پر ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔: بجلی کے انتظام پر 3 لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل مروز لاہور 9 ۔اپریل 1980ء)

اندرا سے استمداد :  
مفتی محمودنے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء)
دیوبند کے تبرکات:  
زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء)
تاثرات  
احتشام الحق تھانوی:  
کراچی 22 ۔مارچ مولونا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء)
وقار انبالوی :
مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا :  
(بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است)
کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ ماؤرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ (سرراہے نوائے وقت 29۔ مارچ 1980ء)
جشن دیوبند پر قہرخداوندی :  
دارلعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے بعد سے (جس میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نظر عنایت سے محروم کرنے والی تھیں) ایک خانہ جنگی شروع ہوئی جو برابر جاری ہے اوراس عاجز کے نزدیک وہ خداوندی قہرو عذاب ہے۔ راقم سبطور ساٹھ سال سے اخبار اور رسائل کا مطالعہ کرتا رہا ہے ان میں وہ رسالے اور اخبارات بھی ہوتے ہیں جن میں سیاسی یا مذہبی مخالفین کے خلاف لکھا جاتا تھا اور خوب خبر لی جاتی تھی ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی کے اختلافی مضامین میں شرافت کو اتنا پامال اور رزالت و سفالت کا ایسا استعمال کیا گیا ہو جیسا کہ ہمارے دارالعلوم دیوبند سے نسبت رکھنے والے ان مجاہدین قلم نے کیا ہے۔ پھر ہماری انتہائی بدقسمتی کہ ان میں وہ حضرات بھی ہیں جو دارالعلوم کے سند یافتہ فضلاءبتلائے جاتے ہیں۔ (ماہنامہ الفرقان لکھنوءفروری 1981ءالاعتصام لاہور 20۔مارچ)
سیارہ ڈائجسٹ :  
اناری اسٹیشن پر ٹکٹیں خریدی گئیں تو پتہ چلا کہ حکومت بھارت نے (جشن دیوبند کے) شرکاءکو یکطرفہ کرایہ میں دو طرفہ سفر کی رعایت دی ہے۔ بعض لوگ کفار کی طرف سے اس رعایت یا مدد کو مسترد کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ اسی کافر حکومت نے جشن دیوبند کی تقریبات کے انتظامات پر ایک کروڑسے زائد رقم لگائی ہے اور گیسٹ ہاؤس بھی بنوا دیا ہے۔ تو یہ اصحاب ندامت سے بغلیں جھانکنے لگے۔ دیوبند میں اندراگاندھی، جگ جیون رام، چرن سنگھ، جیسی معروف شخصیتیں آئی ہوئی تھیں۔ اور دیوبند تقریبات پر حکومت نے ایک کروڑ 20۔لاکھ روپے صرف کئے اور ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ دیوبند کی افتتاحی تقریب میں جب اندراگاندھی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت کے تصور ہم آہنگ کرکے مسلم قومیت کے تصور کی بیخ کنی کی تو وہاں موجود چوٹی کے علماءکو السام کے اس عظیم اور بنیادی فلسفہ کی تشریح اور تصحیح کی جراءت نہ ہوئی۔ حکیم الامت (اقبال) نے کانگریس کے علماءکی اسی ذہنی کیفیت کو بھانپ کر فرمایا تھا:  
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است  
تلاوت و ترانہ کے بعد اسٹیج پر کچھ غیر معمولی حرکات کا احساس ہوا۔ اس لئے کہ شریمتی اندراگاندھی افتتاح اجلاس میں آرہی ہیں۔ اسٹیج پر موجودہ تمام عرب و فوددو رویہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ اندراگاندھی ان سب کے خوش آمدید کا مسکراہٹ سے جواب دیتے ہوئے آئیں۔ انہیں مہمان خصوصی کی کرسی پر جو صاحب صدر اور قاری محمد طیب کی کرسیوں کے درمیان تھی بٹھایا گیا (جبکہ دیگر بڑے بڑے علماءبغیر کرسی کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ شریمتی کو دیکھنے کے لئے زبردست ہلچل مچی تمام حاضرین اور خصوصا پاکستانی شرکاءشریمتی کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ شریمتی ایک مرصع اور سنہری کرسی پر لاکھوں لوگوں کے سامنے جلوہ گر تھیں۔ شریمتی نے سنہری رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں ہلکے رنگ کا ایک بڑا سا پرس تھا۔ قاری محمد طیب صاحب کے خطبہءاستقبالیہ کے دوران مصر کے وزیر ادقاف عبداللہ سعود نے شریمتی اندراگاندھی سے ہاتھ ملایا۔ نیز شریمتی ارو مفتی محمود صاحب تھوڑی دیر اسٹیج پر کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے۔ (بعض شرکاء دیوبند کا کہنا ہے کہ اندراگاندھی بن بلائی آئی تھی) اگر یہ درست مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے مہمان خصوصی کی کرسی پر کیوں بٹھایا گیا تقریر کیوں کرائی گئی ؟ چرن سنگھ اور جگ جیون رام وغیرہ نے ایک مذہبی سٹیج پر کیوں تقاریر کیں؟ کیا یہ سب کچھ دارالعلوم دیوبند کے منتظمین کی خواہش کے خلاف ہوتا رہا ؟ دراصل ایک جھوٹ چھپانے کے لئے انسان کو سو اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ کاش! خدا علماءکو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ایک پاکستانی ہفت روزہ میں مولانا عبدالقادر آزاد نے غلط اعداد و شمار بیان کئے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے ان کے مطابق دس ہزار علماءکا وفد پاکستان سے گیا تھا۔ حالانکہ علماءو طلبہ ملا کر صرف ساڑھے آٹھ سو افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے دیوبند گئے تھے۔ اجتماع کی تعداد مولانا نے کم از کم ایک کروڑ بتائی ہے۔ حالانکہ خود منتظمین جلسہ کے بقول پنڈال تین لاکھ آدمیوں کی گنجائش کے لئے بنایا گیا تھا۔ کاش! ہم لوگ حقیقت پسند بن جائیں۔ اعداد و شمار کو بڑھا بڑھا کر بیان کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ عرب و فود کیلئے طعام و قیام کا عالیشان انتظام تھا۔ ڈائینگ ہال اور اس طعام کا ٹھیکہ دہلی کے انٹر کانٹی نینسٹل ہوٹل کا تھا۔ عربوں کے لئے اس خصوصی انتظام نے مساوات اسلامی سادگی اور علماءربانی کے تقدس کے تصور کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کل انتظام کا 57 فیصد طوجھ عرب و فود کی دیکھ بھال اور اہتمام کی وجہ سے تھا۔ (ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور جون 1980آنکھوں دیکھا حال)
سیدہ اندرا گاندھی :روزنامہ اخبار الاعالم الاسلامی سعودی عرب نے لکھا کہ سعودی حکومت نے دارالعلوم دیوبند کو دس لاکھ روپے وظیفہ دیا۔ جبکہ سیدہ اندرا گاندھی نے جشن دیوبند کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کیا۔ (14۔جمادی الاولیٰ 1400ھ)
غلام خان درمدح مشرک :  
روزنامہ جنگ راولپنڈی۔ یکم اپریل 1980ءکی اشاعت میں ایک باتصویر اخباری کانفرنس میں مولوی غلام خاں کا بیان شائع ہوا کہ جشن دیوبند کو کامیاب بنانے کے لئے بھارت کی حکومت نے بڑا تعاون کیا ہے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرکے اندراحکومت نے اس مقصد کےلئے سڑکیں بنوائیں، نیا اسٹیشن بنوایا ہم سے نصف کرایہ لیا اور دیوبند کی تصویر والی ٹکٹ جاری کی۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے بھارت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے وہاں باہر سے کوئی چیز نہیں منگواتے اس کے مقابلے میں پاکستان اب بھی گندم تک باہر سے منگوا رہا ہے۔ پاکستان میں باہمی اختلافات اور نوکر شاہی نے ملک کو ترقی کی بجائے نقصان کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی)  
یاد رہے :۔  
کہ مولوی غلام خاں کا یہ آخری اخباری بیان تھا۔ جس میں اس موحد نے عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صد سالہ جشن دیوبند کو بدعت قرار دینے اور دیگر تکلفات و فضول خرچی بالخصوص ایک دشمن السام و پاکستان بے پردہ و غیرمحرم کافرہ مشرکہ کی شمولیت کی پر زور مذمت کرنے کی بجائے الٹا جشن دیوبند کی کامیابی و اندراگاندھی کی کامیابی و احسانات کے ذکر و بیان کے لئے باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اور اندراحکومت کی توصیف اور اس کے بالمقابل پاکستان کی تنقیص کی گئی اور ساری عمر غیراللہ کی امداد استمداد کا انکار کرنے والوں نے اندراحکومت کے بڑے تعاون کو بڑے اہتمام سے بیان کیا۔ اور ساری عمر یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پکارنے والے صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو خواہ مخواہ مشرک وبدعتی قرار دے کر مخالف کرنے والے آخر عمر میں کافرہ مشرکہ کی مدح کرنے لگے۔ جس پر قدرت خداوندی کے تحت آخری انجام بھی عجیب و غریب اور عبرتناک ہوا۔
چنانچہ  
محمد عارف رضوی ملتانی خطیب فیصل آباد کے ایک مطبوعہ اشتہار میں دوبئی سے مختار احمد صاحب کا ایک خط بدیں الفاظ شائع ہوا ہے۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر لکھتا ہوں کہ (دوبئی میں) میں نے خود پہلے ان کی تقریر سنی جو انہوں نے یہاں کی۔ تقریبا دو گھنٹے تک آپ تقریر کرتے رہے۔ ہزاروں لوگ تقریر سننے آئے ہوئے تھے۔ مولانا غلام اللہ خاں صاحب نے خوب خوب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی پہلے میںخود بھی ان کا مداح تھا۔ پھر تقریر کرتے ہوئے انہیں دل پر درد پڑا۔ اور انہیں ہسپتال لایا گیا۔ وہ پلنگ سے اچھل کر چھت تک جاتے اور پھر زمین پر آ پڑتے۔ ڈاکٹر سب کمرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ میں چھپ کر دیکھتا رہا اور کانپتا رہا۔ اسی کشمکش میں تقریبا ایک گھنٹہ گزرا پھر خاموشی ہو گئی۔ کوئی اندر جانے کو تیار نہ تھا۔ میں نے ڈاکٹر کو بلایا۔ جب کافی آدمی جمع ہو ئے، اکٹھے اندر گئے اور دیکھا کہ ان کا رنگ سیاہ پڑ چکا ہے زبان منہ سے باہر نکل کر لٹک رہی تھی اور آنکھیں باہر ابل آئی تھیں۔ مجبورا اسی طرح پیٹی میں بند کرکے پاکستان بھیج دیا گیا۔ میں تین چار دن بیمار رہا اور اٹھ اٹھ کر بھاگتا تھا۔ پھر توبہ استغفار پڑھی اور کچھ میں ٹھیک ہوا۔یہ تھی ان کی تقریر اور انجام۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی کام کر گئی۔ (مختار احمد 19ستمبر 1980ءدوبئی)  
نوائے وقت کی تائید:  
روزنامہ نوائے وقت کے خصوصی نمائندہ کی رپورٹ سے بھی مختار احمد صاحب کے مذکورہ مکتوب کی تائید ہوتی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جگہ جگہ لوگوں نے مولانا(غلام خان) کی میت کا آخری دیدار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ حتیٰ کہ جبمولانا کی میت لحد میں اتاری جانے لگی۔ تو طبی وجوہ کی بناءپر اس وقت بھی خواہش مند سوگواروں کو مولانا کی میت کا آخری دیدار نہیں کریا گیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ راولپنڈی 29 مئی 1980ء) ظاہر ہے کہ بقول مختار احمد دال میں کچھ کالا ہے ضرور تھا۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ بزعم خویش ساری عمر قرآن پاک کی تبلیغ کرنے والے اور شیخ القرآن کہلانے والے کا چہرہ بھی نہ دکھایا گیا۔ جب کہ بیرونی ممالک سے لائی جانے والی عام لوگوں کی میت کا بھی آخری دیدار کرایا جاتا ہے۔  
یہ ہے مسلمانوں کو مشرک بنانے اور اصلہ نسلی مشرکوں کی تعظیم و مدح سرائی کا عبرتناک انجام اور جشن دیوبند منانے اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوے لگانے کی قدرتی گرفت و سزا۔  
والعیاذ باللہ
قادری محمد طیب :مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی دیوبند سے بیدخلی کے باعث اسی کشمکش میں دنیا سے چل بسے جو جشن دیوبند کی نحوست و شامت کے باعث خانہ جنگی کی صورت میں پیدا ہوئی۔ حتیٰ کہ آخری وقت ان کا جنازہ بھی دارالعلوم میں سے نہ گزرنے دیا گیا۔ (روزنامہ جنگ 21۔ اگست 1983ء)  
اگر درخانہ کس است یک حرف بس است 
اندراگاندھی کا مرثیہ :بھارتی وزیراعظم آنجہانی مسز اندراگاندھی کے قتل پر جس طرح پاکستان میں موجود سابق قوم پرست علماءاور کانگریس کے سیاسی ذہن و فکر کے ترجمان وارثان منبرہ محراب نے تعزیت کی ہے وہ کوئی قابل فخر اور دینی حلقوں کیلئے عزت کا باعث نہیں ہے۔ قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ نظام العلماءپاکستان کے نامور رہنماؤں مولانا محمد شریف و ٹو مولانا زاہدالراشدی اور مولانا بشیر احمد شاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ: اندراگاندھی نے اپنے اقتدار میں جمعیت علماءہند اور دارالعلوم دیوبند کی قومی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا اور ہر طرح کی معاونت اور حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ نیزا ن رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ اندرا نے جشن دیوبند میں اکابر دیوبند سے اپنے خاندانی تعلقات کا برملا اظہار کیا یہ پڑھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ سیکولرازم کے علمبراداران سابق کانگرسی علماءکو ابھی تک اندرا کے خاندانی تعلق پر کس قدر فخر ہے۔ کس قدر ستم کی بات ہے کہ ان مٹھی بھر لوگوں نے ابھی تک اپنے دل میں پاکستان کی محبت کی بجائے اندارگاندھی سے تعلق کو سجا رکھا ہے۔ اس لئے پاکستان کی تلخیاں اپنے دل سے نہیں نکال سکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مولاناشبیر احمد عثمانی کو ان کے اپنے قول کے مطابق جس طرح فرزندان دیوبند کو اکثریت غلیظ گالیوں سے نوازتی تھی وہ فکر آج تک ان لوگوں کے سینوں میں عداوتِ پاکستان کا ایک تنا ور درخت بن چکی ہے ، ورنہ اس وقت پنڈت موتی لال نہرو ، پنڈت جواہر لال نہرو کا جناب سید احمد بریلوی اور جناب اسماعیل دہلوی سے فکری تعلق جوڑنے کی کیا ضرورت تھی ، دیوبند کے ان رہنماؤ ں نے یہ بیان دے کر آج بھی دو قومی نظریے کی نفی کی ہے ۔ تحریک پاکستان میں ہندواؤں کے ساتھ کانگریسی خیال کے علماءکے کردار کو نمایاں کرنا ہمارے لئے باعث ِ شرم ہے ۔ ( روزنامہ آفتاب لاہور 3 نومبر 1984 ء)
دیوبند بریلی کی راہ پر :۔  
ماہ جمادی الاخر 1409 ھ میں اہلسنت کی دیکھا دیکھی علمائے دیوبند نے بھی دھوم دھام سے نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ منایا بلکہ عین یوم وصال 22 جمادی الاخر کو مختلف مقامات پر جلوس نکالا اور سرکاری طور پر نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بلکہ ایام خلفائے راشدین منانے اور یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا ۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔اخبار جنگ لاہور ۔ یکم فروری ۔ نوائے وقت 2.3 فروری مشرق لاہور 30 جنوری 1989 ء ) نیز ایک دیوبندی انجمن سیالکوٹ کی طرف سے 22 رجب کو یوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی سرکاری طور پر منانے اور اس دن تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔( نوائے وقت 13 فروری 1989 ء)
انجمن سپاہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بنام سپاہ صحابہ :۔  
رحیم یار خان اور صادق آباد میں بھی دیوبندی سپاہ صحابہ کے زیر اہتمام یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر بڑے اہتمام سے جلوس نکالا گیا چنانچہ انجمن سپاہ مصطفٰی رحیم یار خان نے دیوبندی علماءسے جواب طلبی کی کہ بتاؤ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس ناجائز کیوں ؟ اور وصال صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جلوس جائز کیوں ؟ اس پر انجمن سپاہ صحابہ کے دیوبندی علماءپر سناٹا چھاگیا۔ البتہ مولوی محمد یوسف دیوبندی نے ذرا ہمت کی اور انجمن سپاہ صحابہ کے مولوی حق نواز جھنگوی وغیرہ پر بدیں الفاظ فتویٰ عائد کیا کہ لوگوں نے ایک نئے انداز سے صحابہ کرام کے دن منانے شروع کردیئے ہیں کو کہ صریح بدعت اور شرعا ناپسندیدہ فعل ہے نہ ہی شریعت مقدسہ میں اس قسم کے جلوسوں کی اجازت ہے اور نہ ہی علماءدیوبند کا ان جلوسوں سے کوئی تعلق ہے ، اللہ تعالیٰ ان (حق نواز دیوبندی وغیرہ ) کو ہدایت دے کہ بدعات کے اختراع کی بجائے سنتوں کو زندہ کریں ۔( مولوی محمد یوسف دارالعلوم عثمانیہ ) چک نمبر پی 88 رحیم یار خان بتاریخ 24 جمادی الاخر 1409 ھ 
بمصداق مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیر ی 
مولوی محمد یوسف دیوبندی کے فتویٰ سے ثابت ہوگیا کہ دیوبندی وہابی مکتب فکر کی انجمن سپاہ صحابہ اور بالخصوص اس انجمن کے لیڈر مولوی حق نواز جھنگوی اور ان کے رفقاءگمراہ و بدعتی ہیں جنہوں نے صریح بدعت و شرعا ناپسندیدہ فعل اوربدعات کے اختراع کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ مولوی یوسف دیوبندی کے علاوہ باقی تمام علماءدیوبند۔ مولوی سرفراز گکھڑی، عنایت اللہ بخاری اور ضیاءالقاسمیٰ دیوبندی وغیرہ ہم بھی مولوی حق نواز دیوبندی کے شریک جرم ہیں۔ جنہوں نے سپاہ صحابہ کے بدعات کے مظاہرہ پر اپنی خاموشی سے کم از کم نیم رضا مندی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ تمام ناقابل تردید حقائق و شواہد اور حوالہ جات سے فرزندان نجدودیوبند غیر مقلدین و دیوبندی علماءکا دور خامنافقانہ کردار واضح ہو گیا۔ کہ ان لوگوں کو محض شان رسالت و ولایت سے عداوت کے باعث میلادشریف اور عرس و گیارہویں شریف سے عنا دہے اور خود ساختہ جشن دیوبند و بدعات اہلحدیث سے انہیں کوئی تکلیف نہیں۔ 
نوٹ:
یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یک محرم 1421ھ کو دیوبندی انجمن سپاہ صحابہ نے ملک بھر میں یوم فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی منایا اور جلوس بھی نکالا۔
جشن غیر مقلدین بزعم خویش اہلحدیث: 
منکرین شان رسالت ق مخالفین جشن میلاد و جلوس مبارک کے فریق اول علماءدیوبند کے صد سالہ جشن دیوبند کی تفصیلات ملاحظہ فرمانے کے بعد فریق دوم غیر مقلدین کے جشن و جلوسوں اور دیگر بدعات کا بھی باحوالہ تاریخی بیان مطالعہ فرمائیں اور ان لوگوں کی شان رسالت دشمنی کا اندازہ لگائیں۔ ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ نے جشن غیر مقلدین کے موقع پر اسی وقت تازہ تازہ بعوان اسے کیا کہیئے تحریر کیا کہ: 
غیر مقلدین اہلحدیث کے شرک و بدعت پر مبنی اصولوں کے تحت روضہءنبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کا شدرحال بھی شرک و معصیت ہے۔ عرس و میلاد و گیارہویں وغیرہ کیلئے وقت و دن کا تعین و اہتمام بھی بدعت وناجائز ہے۔ اور جشن عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ آولہ وسلم کی عظیم الشان تقریب پر جلوس و جھنڈیوں وغیرہ کا اہتمام بھی اسراف و بدعت اور بے ثبوت ہے۔ مگر برعکس اس کے قائد اہلحدیث احسان الٰہی ظہیر کی قیادت میں جمعیت اہلحدیث نے 18۔ اپریل 1986ءبروز جمعۃ المبارک کا تعین کرکے موچی دروازہ لاہور میں کثیر اخراجات کے ساتھ جلسہءعام کا انعقاد کیا۔ مختلف علاقوں اور شہروں سے جھنڈوں کے ساتھ جلوسوں کی صورت میں موچی دروازہ لاہور پہنچنے کا اہتمام و انتظام کیا۔ اور موچی دروازہ لاہور کے سفر و شدرحال کے لئے اخبارات و اشتہارات میں مسلسل اعلان کیا گیا کہ: 
چلو چلو ، لاہور چلو موچی دروازہ لاہور چلو 
گویا جو موچی دروازے نہیں گیا وہ اہلحدیث نہیںرہا اور 18۔اپریل کو سب سے بڑی بدعت کا ارتکاب یوں کیا گیا کہ اہلحدیث مساجد میں نماز جمعہ کا ناغہ کرکے اور مساجد کو بے آباد کرکے موچی دروازہ میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا۔(جنگ لاہور۔ 15اپریل 1986ء) 
ہے کوئی اہلحدیث: 
جو موچی دروازہ لاہور کی مذکورہ بدعات و اسراف اور اس پر مستزاد تالی و فوٹوبازی کا جواز و ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کرے یا پھر ان سب بے ثبوت و غلط امور کی انجام دہی کے بعد روضہءنبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت، عرس و میلاد گیارہویں کی تقاریب اور جلوس میلاد و جھنڈیوں وغیرہ کے خلاف اپنی فتویٰ بازی واپس لینے کا اعلان کرے، ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ان لوگوں کی طرف سے خود جشن منانا اور جشن میلاد و جلوس مبارک کے خلاف فتویٰ بازی کرنا محض شان رسالت سے دشمنی پر مبنی ہے۔ والعیاذباللہ تعالیٰ۔ 
جشن لاہور:۔ 
کے علاوہ مقلدین نے مختلف مقامات پر جلسہءعام کے نام پر جشن منانے کے علاوہ گوجرانوالہ میں بھی 19۔ مئی1986ءکو بالخصوص جلسہءعام کے جشن و جلوسوں کا بہت اہتمام کیا۔ اور جلسہءہذامیں فوٹوبازی پٹاخے بازی و تالی بجانے کے علاوہ وڈیو فلمیں بھی تیار کی گئیں۔ (روزنامہ نوائے وقت 10، 11۔ مئی 1986ء) 
غیر مقلدین :۔ 
کے ظہیر گروپ کے مذکورہ اعمال نامہ کے بعد ان کے میاں فضل حق و لکھوی گروپ کا اعمال نامہ بھی ملاحظہ ہو۔
8 ۔اگست 1986ءبروز جمعہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے مولانا معین الدین لکھوی اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ میاں فضل حق ایک روز دورہ پر گوجرانوالہ پہنچے تو پل نہرا پر جناب پرمرکزی جمعیت اہلحدیث، مرکزی جمعیت شبان اہلحدیث اور جعیت رفقائے اسلام کے سینکڑوں کارکنوں کے علماءکی قیادت میں ان کا شاندار استقبال کیا اور انہیں جلوس کی شکل میں جامع مسجد مکرم ماڈل ٹاؤن لایا گیا راستہ میں شیرانوالہ باغ کے قریب خاکسار تحریک کے ایک دستہ نے سالار اکبر غلام مرتضٰے اور عنایت اللہ کی سربراہی میں ان رہنماؤں کو اکیس گولوں کی سلامی دی۔ شرکاءجلوس پاکستان کے قومی پرچم اور جمیعت اہلحدیث کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ بعد نماز جمعہ جمعیت شبان اہلحدیث نے مسجد مکرم سے شریعت بل کی حمایت میں ایک جلوس نکالا۔ یہ جلوس سر کلر روڈ سے ہوتا ہوا جامعہ اشرفیہ میں پہنچ کر جلسہءعام میں شامل ہو گیا۔ (روزنامہ نوائے وقت جنگ مشرق لاہور۔9۔10 اگست 1986ء) 
منکرین جشن میلاد و جلوس مبارک کا مذکورہ اعمال نامہ اور تاریخی دستاویز بمصداق: داشتہ آیدسپیرا۔ اپنے پاس محفوظ و ذہن نشین رکھنے کے علاوہ ملاحظہ فرمائیں۔ کہ ان لوگوں کے ہاں اپنے لئے اور اپنے مولویوں اور لیڈروں کے لئے ہر طرح شان و شوکت، جشن و جلوس، گولوں کی سلامی اور جھنڈے وغیرہ تکلفات و رسومات سب کچھ ناجائزو روا ہے۔ مگر نجدی دیوبندی دھرم میں پابندی ہے۔ توصرف جشن میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جشن و جلوس مبارک پر ہے ۔کوئی مفتیءنجدو دیوبند جو اپنی دو عملی و دوررنگی اور اس دوہرے معیار کی کوئی دلیل کتاب و سنت سے پیش کرے۔ جس کا منافقانہ طور پر بڑا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ تف ہے ایسی نام نہاد مسلمانی توحید پرستی پر۔ 
نوٹ:۔ 
ہم نے اخباری بیانات و رپوٹنگ سے اہلحدیث کے جشن و جلوسوں کے جو حوالے دئیے ہیں۔ انہیں اہلحدیثیوں کے ترجمان ہفت روزہ الاسلام لاہور نے 25۔ اپریل اور 16 مئی 1686ءمیں اور ہفت روزہ اہلحدیث لاہور نے 8 ۔اور 15۔اگست کی اشاعت میں بھی نقل اور تسلیم کیا ہے۔ 
عید :۔ 
بلکہ الاسلام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ موچی دروازہ کے تاریخی جلسہ کی تیاریاں تقریبا تین ہفتوں سے جاری تھیں۔ اور عید کے چاند کی طرح ہر تاریخ اس انتظار میں گزر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔بالآخر 18 ۔اپریل کا آفتاب ایک نیا ولولہ اور ایک نئی روشنی لے کر طلوع ہوا۔(الاسلام 25۔اپریل 1986ءص:4) 
منکرین میلاد: 
جلوس مبارک کی شان رسالت سے عداوت اور ازلی شقاوت و اندرونی خباثت کا بھی کوئی ٹھکانہ ہے کہ 18۔اپریل )کی انگریزی تاریخ) کوجلسہءاہلحدیث کے لئے تو ایسی تیاریاں اور سرگرمیاں کہ دن رات ایک کر دیا جائے۔ اور عید کے چاند کی طرح انتظار کیا جائے۔ اور 18 ۔اپریل یوم جلسہ کے آفتاب کے طلوع کو نئے ولولے اور نئی روشنی سے تعبیر کیا جائے۔ لیکن یوم عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے موقع پر ان بزرگوں پر مردنی چھا جائے۔ لفظ عید کے استعمال سے لے کر ہر چیز کو بدعت و شرک کی عینک سے دیکھنا شروع کر دیں۔ اور 12۔ ربیع الاول کا آفتاب نئے ولولے اور نئی روشنی کی بجائے منکرین کی موت و تباہی کا پیغام لے کر طلوع ہو۔ افسوس ہے ایسی ہٹ دھرمی و کور چشمی پر۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
اہلحدیث: 
کے ایک اور ترجمان ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور نے 23۔مئی 1986ءکی اشاعت میں لکھا ہے کہ:زہے ماہ رمضان و ایام اد کہ چوں صبح عیداست ہر شام اد 
انصاف پسند: 
حضرات غور کریں کہ اس ترجمان اہلحدیث نے کس وسیع القلبی کے ساتھ ماہ رمضان کی ہر شام کو صبح عید قرار دے کر عیدالفطر سے پہلے ہی ماہ رمضان میں پوری تیس عیدیں زائد بنا ڈالیں ہیں۔ اور یہاں انہیں اپنا یہ کلیہ یاد نہیں رہا کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں۔ لٰہذا کسی تیسری عید کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس کلیہ کی آڑ میں عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف خبث باطنی کا اظہار کیا جاتا ہے گویا اگر ضد و عناد ہے تو صرف حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عید میلاد سے جس کی طفیل اول الاعتصادم رمضان کی ہر شام بھی صبح عید ہے۔ 
عید کا سماں: 
تھانہ کنگن پورموکل میں 2 ۔مئی کو عظیم الشان تاریخی جلسہ ہوا۔ رنگ برنگی جھنڈیوں اور اسٹیج کی سجاوٹ نے عید کا سماں بنا رکھا تھا۔ (اہلحدیث لاہور22 ۔جون 1985ء)
اہلحدیث کے بقول اگر ایک عام جلسہ و اسٹیج کو بال ثبوت رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجانا جائز ہے۔اس میں کوئی بدعت و فضول خرچی نہیں، تو میلاد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جیسی خصوصی تقریب کے لئے محافل میلاد کا انعقاد و سجاوٹ کیسے ناجائز ہو سکتی ہے اور اگر ایک عام قسم کے جلسہ کو خوشی سے عید کا ساسماں بنایا جا سکتا ہے تواس سے بدرجہا بڑھ کر میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تقریب کو نہایت خوشی کے باعث عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ 
زنانہ جلوس: 
(تحریک نظام مصطفی کے دروان) گوجرانوالہ شہر میں خواتین کے تمام جلوس مدارس اہلحدیث سے نکلے (اہلحدیث لاہور 2 جنوری 1978ء) 30۔مارچ 1977ءکے روز مفتی محمود کی زیر صدارت قومی اتحاد کا فیصلہ تھا کہ آج خواتین کا جلوس نکالا جائے گا۔ سواتین بجے فاطمہ جناحروڈ سے جلوس کا آغاز ہوا۔ جلوس میں سب سے آگے بیگم ابوالاعلیٰ مودودی تھیں۔(ہفت روزہ ایشیا لاہور 3۔اپریل 1977ء) 
کیوں جی: 
قومی اتحاد سے وابستہ اہلحدثیو۔ دیوبندیو۔ مودودیو، اگر 1977ءمیں نظام مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے زنانہ جلوس بدعت و ناجائز نہیں تھے۔ (حالانکہ ان میں بے پردگی نعرہ بازی اور تالیاں سب کچھ تھا۔) تو بعد میں میلاد مصطفی کے مردانہ جلوس کیوں بدعت و ناجائز ہو گئے۔؟ حاجی حق حق نے کیسی حقیقت افروز بات فرمائی ہے کہ: 
تم جو بھی کرو بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
12۔ربیع الاول: 
مسلک اہل حدیث کے ترجمان ہفت روزہ اہلحدیث نے بعنوان قدیم صحائف کی گواہی لکھا ہے کہ۔ ۔۔۔۔۔ بھارت میں ایک کتاب بعنوان کلکی اوتار اور محمد صاحب منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے مصنف الٰہ آباد یونیورسٹی سنسکرت کے ریسرچ سکالر پنڈت دید پر شادادپار یہ ہیں۔ اور اس پر آٹھ ہندو پنڈتوں نے تصدیقی نوٹ لکھے ہیں۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
کلکی لوتار (عالم انسانیت کے آخری نجات دہندہ برگزید نبی) کو۔ فرشتوں کے ذریعے مہیا ہو گی۔ حسن وجاہت میں وہ بے مثال ہوں گے۔ ان کا جسم معطر ہوگا۔ وہ مہینے (ربیع الاول کی 12۔تاریخ کو پیدا ہوں گے۔ وہ شہسوار و شمشیرزن ہوں گے۔ 
یہ بیان کرنے کے بعد پنڈت دید پر شاداس نتیجہ پر پہنچے ہوں کہ موصوف آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سبحان اللہ:
غیر مسلموں کی زبانی ان کی پیشین گوئی کے مطابق اہلحدیث کی تصدیق سے شان مصطفوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کتنا عمدہ بیان ہوا۔ جس میں یہ صرف تصریح بھی آ گئی کہ 12۔ربیع الاول ہی یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ 
تعجب ہے : 
کہ غیرمسلموں کی پیشین گوئی و اہلحدیث کی تصدیق کے مطابق تو یوم ولادت کی 12۔تاریخ ہو لیکن مسلمان کہلانے اور بعض اہلحدیث بننے والے خواہ مخواہ اس میں انتشار و افتراق کا موجب بنیں۔ مولد خیرالبریہ میں نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد نے لکھا ہے کہ شب ولادت مصطفی میں کوئی شک کسریٰ حرکت میں آیا۔ آتش فارس بجھ گئی (حضرت آمنہ) نے زمین کے مشارق و مغارب کو دیکھا نیز تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک پشت کعبہ پر۔ جب حضرت ہمراہ نور کے پیدا ہوئے دیکھا تو آپ سجدے میں ہیں اور انگلی طرف آسمان کے۔ مذید تفصیل اس مستقل تصنیف شمامہ عنبریہ من مولد خیرالبریہ میں پڑھیں اور اہلحدیث بھی اس طرح میلاد مصطفی بیان کریں۔ خدا ہدایت دے۔
نہایت کار آمد یادگار تاریخی حوالے: 
23 مارچ 1987ءکا دن یوم قرار داد پاکستان کی مناسبت سے تو یادگار تھا ہی۔ مگر اس دن غیر مقلد وہابیوں کی جمعیت اہلحدیث کے جلسہءلاہور (فوارہ چوک قلعہ لچھن سنگھ) میں بم کے زبردست دھماکہ سے وہابیوں کے لیڈر احسان الٰہی ظہیر اور حبیب الرحمان یزدانی آف کا مونکی سمیت دن وہابیوں کی نہایت عبرتناک ہلاکت اور 100 کے قریب زخمی ہونے والوں کی یاد میں وہابیوں کی احتجاجی تحریک کے باعث بھی 23مارچ دوہری یادگار بن گیا ہے۔ اس تحریک کے دوران منکرین شان رسالت و عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اپنا وہابی مذہب اور بالخصوص شرک و بدعت کے سارے فتوے بالائے طاق رکھ کر ہر جائز و ناجائز اور اخلاقی و غیر اخلاقی طریقہ سے احتجاجی مظاہرے کئے۔ جو کسی بھی اخبار بین شخص سے مخفی نہیں۔ 
پہلی بات: 
تو یہی ہے کہ ان کا خاص 23۔مارچ کو یوم پاکستان کے مقررہ موقع ہر جلسہ کرنا ہی سراسر بدعت تھا اور اس جلسہ میں نہ صرف فوٹوسازی و کیمرہ بازی ہورہی تھی بلکہ باقاعدہ وڈیو فلم بھی بنوائی جارہی تھی ( جسے اب بھی وہابی موقع بموقع مختلف مقامات پر دکھاتے اور دیکھ دیکھ کر روتے ہیں ۔)جو سراسر حرام و بدعت فعل تھا اور اس شدید بدعت کا ارتکاب کرتے ہوئے وہابی مولوی بم کے دھماکہ سے موت کی آغوش میں پہنچ گئے اور عین میلاد شریف کو بدعت و شرک قرار دینے والے وہابیوں کے چوٹی کے مولوی اور لیڈر عین موت کے موقع پر نہ صرف اس صریح قباحت وشناخت میں خود ملوث ہوئے بلکہ وہابیوں کو اس گناہ میں مسلسل مبتلا رکھنے کے لئے اپنی شرک و بدعت کی یہ بدترین یادگار باقی چھوڑ گئے ، کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ : 
جب سرمحشر پوچھیں گے بلاکرسامنے
کیا جواب جرم دوگے تم خدا کے سامنے 
یاد رہے :
کہ فوٹو صرف بدعت و گناہ ہی نہیں بلکہ علماءاہلحدیث نے اسے شرک تک قرار دیا ہے ۔ چنانچہ جماعت اہلحدیث کے ترجمان ہفت روزہ الاعتصادم لاہور نے مفتیءاعظم سعودی عرب عبدالعزیز بن باز کا فتویٰ بدیں الفاظ شائع کیا ہے کہ فوٹو بنانا اورا س کی پسندیدگی باعث لعنت ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس فعل بد اور کفار و مشرکین کے کردار ناہنجار میں سر موفرق نہیں۔ وہ (فوٹو باز) از سر نو شرک کا دروازہ کھول رہا ہے اور کفر کے ذرائع و وسائل کو رواج دے رہا ہے۔ ۔۔۔۔ جس طرح کسی جرم کا کرنا حرام ہے۔ اسی طرح اس کا حکم دینا اس پر رضا مندی بھی حرام ہے۔ ۔۔۔ اور جو کوئی باوجود قدرت انکار اور اظہار بیزاری کے گناہ دیکھ کر خاموش رہتا ہے تو وہ گناہ کے مرتکب فوٹو گرافر اورویڈیو فلم ساز (کے حکم میں ہے۔ ایسا شیطان اخرس (گونگا شیطان) برابر کا مجرم ہے۔(ہفت روزہ الاعتصادم لاہور 21۔28جولائی 1978ء) 
نیز لکھا ہے کہ بڑی بڑی بدعتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کی تصویر بنائی جائے۔ (الاعتصادم 15۔مئی 1987ء) 
یہی نہیں: 
احسان الٰہی ظہیر کی زندگی میں شخصی طور پر ان کا نام لیکر ان کے متعلق بالخصوص اور دیگر فوٹوباز علماءاہلحدیث اور باتصویر کیسٹ بیچنے والےاہلحدیثوں کے متعلق بالعموم الاعتصادم نے لکھا ہے کہ علماءاہلحدیث کی تقاریر کے باتصویر کیسٹ دھڑا دھڑ، فروخت ہو رہے ہیں۔ ان جید علماءکے کیسٹوں پر فوٹو دیکھ کر دکھ ہوا کہ جس چیز کے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم لوگ قائل نہیں آج وہ چیز ہمارے علماءمیں رائج ہو رہی ہے۔ حالانکہ تقاریر کے کیسٹوں پر جید علماءکے فوٹو کا جواز نہیں بن سکتا۔ (الاعتصادم 15۔نومبر 1985ء) 
یزید و شمر سے بدتر : 
علماءاہل حدیث و دیوبند کے پیشوا مولوی اسماعیل دہلوی نے لکھا ہے کہ تصویر بنانے والے کو پیغمبر کے قاتل کا سا گناہ ہے تو (لٰہذا) وہ یزید اور شمر سے بھی بدتر ہے کہ انہوں نے پیغمبر کو نہیں مارا بلکہ پیغمبر کے نواسے کو اور امام وقت کو کہ پیغمبر کا نائب تھا۔ (ملخصا تقویۃ الایمان ص80) 
خدائی دعویٰ : 
تصویر بنانے والا (مصور و فوٹو گرافر) پردے میں خدائی کا دعویٰ کرتا ہے کہ جو چیزیں اللہ نے بنائی ہیں۔ ان کی مثل بنانے کا ارادہ کرتا ہے۔ بڑا بے ادب ہے۔ (تقویت الایمان ص 18) 
الاعتصادم و تقویۃ الایمان : 
کے مذکورہ فتاویٰ کی روشنی میں فوٹوبازی تصویر و فلم سازی اور اس شدیدوعیدو شرعی جرم کے مرتکب مولویوں کے متعلق تصریحات پڑھ کر اندازہ فرمائیں کہ میلاد مصطفی علیہ التحیۃ الشاءکو محض عداوت قلبی وخبث باطنی کے تحت بدعت و شرک قرار دینے والوں اور ان کے نام نہاد قائدین اہلحدیث کا اپنا نامہ اعمال کیا ہے ؟ وہ میلاد مبارک کے تو نام سے بھی الرجک ہیں۔ لیکن خود نہ صرف 23۔مارچ مناتے بلکہ فوٹو بازی کے باعث عین شرک و بدعت کی حالت میں ہم کے دھماکہ کے باعث دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ جو یقینا سوءخاتمہ کی علامت ہے نہ کہ خاتمہ بالخیر کی۔ اور واللہ اعلم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کی اسی دو عملی و منافقت اور شان رسالت و ولایت اور میلاد و دشمنی کے باعث ہم کی صورت میں ان پر قہر الٰہی نازل ہوا ہو۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔ 
اعتراف میر : 
بہرحال ہم کے دھامکہ میں مرنے والوں کی یاد میں اپنی احتجاجی تحریک کے متعلق جمعیت اہلحدیث کے مرکز سیکرٹری جزل پروفیسر ساجد میر نے گوجرانوالہ کی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم نے اپنی تحریک کے تحت جلسے کئے، جلوس نکالے، جب پھر بھی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا، تو ہم نے احتجاج کاطریقہ تبدیل کرکے اسے علامتی بھوک ہڑتال کی طرف موڑ دیا۔ (روزنامہ جنگ لاہور12۔ جولائی 1987ء) 
دیکھ لیجئے : 
جشن عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جلسہ و جلوس اور اہلسنت کے دیگر معمولات و امور خیر کے ایک ایک پہلو پر شرک و بدعت کا فتویٰ لگانے اور ایک ایک چیز کا صریح ثبوت طلب کرنے والوں کی جب اپنی باری آئی تو ہم کے ایک ہی دھماکہ نے سارے مسلک کیکایا پلٹ کر رکھ دی۔ اب اپنے مرنے والوں کی یاد و احتجاج میں جلسے کریں، جلوس نکالیں، کفن پوش اور کفن پردوش جلوسوں کا اہتمام کریں، حتیٰ کہ بھوک ہڑتال بھی کریں، تو یہ سب کچھ جائز اور تقاضائے توحید و حدیث کے عین مطابق ہے۔ نہ کسی بات پر شرک و بدعت کے فتویٰ کا خطرہ ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث سے اپنے جلسوں ، جلوسوں اور بھوک ہڑتال وغیرہ کا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ کیوں؟ 
محض اس لئے کہ مرنے والے مولویوں اور لیڈروں سے محبت و تعلق ہے۔ اس لئے ان سے تعلق بلا خوف و خطر سب کچھ کرا رہا ہے۔ اور مختلف رنگ دکھا رہا ہے۔ مگر حبیب خدا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عظمت اور اخلاص و تعلق سے چونکہ دل خالی ہیں اس لئے آپ کے میلاد مبارک، محفل میلاد، جلوس میلاد، صلوٰۃو سلام، نعت پاک و نعرہ ءرسالت غرض یہ کہ محبوب کائنات کی محبت و خوشی اور عزت و شان کی ہر بات میں شرک بدعت اور حرام و گناہ کا خطرہ ہوا نظر آتا ہے۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ 
یہ جو بھی کریں بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے 
(اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ: 
وہ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پیارا تو عمر بھر کرے فیض وجود ہی سر بسر
ارے تجھ کو کھائے تپ سفر تیرے دل میں کس سے بخار ہے 
اپنے مردوں کی یاد میں جلسوں ، جلوسوں اور ان کے ان نعروں کی بدعات کو تو سب وہابیوں نے مشرف بہ توحید کر لیا ہے کہ۔ علامہ تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔!   جب تک سورج چاند رہے گا۔ یزدالیٰ تیرا نام رہے گا  (روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ یکم اگست 1987ء) 
حالانکہ : 
یہ سب کچھ نجدی وہابی مذہب کی رو سے سراسر بدعت و بے ثبوت ہے۔ اور تیرا اور تیرے کے لفظ سے بصیغہءندا مردوں کو پکارنا۔ ان سے خطاب کرنا اہل قبور کے سماع و سننے کا نظریہ رکھنا وہابی توحید کے نقطہءنظر سے قطعا شرک ہے۔ مگر غیر مقلدوں کی نئی کایا پلٹ نے ان سب چیزوں کو سند جواز مہیا کر دی ہے۔ ورنہ ان جلوسوں نعروں اور مردوں کو پکارنے کا وہابی مذہب سے کوئی جوڑ اور واسطہ ہی نہیں۔ مگر شریعت شاید ان لوگوں کے نزدیک خالہ جی کا گھر ہے۔ کہ جہاں جو چاہیں، من مانی کریں اور ہیرا پھری کے کرتب دکھائیں۔ بہرحال بھوک ہڑتال کی بدعت کو تو تنظیم اہلحدیث بھی برداشت نہیں کر سکا۔ 
چنانچہ جماعت اہل حدیث کے خصوصی ترجمان ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث نے واشگاف طور پر لکھا ہے کہ 23۔ مارچ کے ہم کے حادثے کے۔۔۔۔۔۔ سلسلے میں جو احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان میں سے بعض مواقع پر شرپسندوں نے ان کار وائیوں کو دوسری طرف موڑ دیا تھا اور کچھ توڑ پھوڑ کی کاروائیاں ہوئیں۔ انہیں بھی جماعت کے سنجیدہ حلقوں نے پسند نہیں کیا تھا اور صدائے احتجاج بلند کرنے سے اتفاق رکھنے کے باوجود اس قسم کی کاروائیوں کی انہوں نے مذمت کی تھی۔ اسی طرح بھوک ہڑتال کا اقدام ہے۔ اگرچہ اسے بھی جمہوریت کی طرح مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم عرض کریں گے کہ پھر بھی اس میں مشابہت کفار کا پہلو پایا جاتا ہے بھوک ہڑتال کا بانی گاندھی تھا اور اب بھی یہ بالعموم انہی لوگوں کا حربہ ہے جو دین سے بے بہرہ یا دین سے بے تعلق ہیں۔ اس لئے اس کی تحسین مشکل ہے۔ ہم اپنے دوستوں اور بزرگوں سے عرض کریں گے کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار میںان رویوں اور طریقوں سے اجتناب برتیں جو کافروں کے ایجاد کردہ ہیں یا بے دینوں کا شعار ہیں۔ (ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور17۔ 24جولائی 1987ء) 
یہ ہے منکرین میلاد نام نہاد اہلحدیثوں کے کردار اور عمل اہلحدیث کا مظاہرہ۔ کہ خود جلوس نکالیں، جلوسوں میں شرپسندی اور توڑ پھوڑ کی کاروارئیاں کریں، جمہوریت کی بدعت کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کریں حتیٰ کہ گاندھی کی پیروی میں بھوک ہڑتال کرکے بے دینوں کا شعار اپنائیں اور کفار کی مشابہت کریں تو انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مگر میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام ہی سے دل جل جاتا ہے۔